خیر مقدم کو نکل آیا ہے اشکوں کاجلوس

خیر مقدم کو نکل آیا ہے اشکوں کاجلوس

آ گئی یادِ شہنشاہِ مدینہ دل میں


میں سبز گنبد کا دھیان کرلوں تو نعت لکھوں

زمین کو آسمان کر لوں تو نعت لکھوں


نبی کے شایانِ شان کر لوں تو نعت لکھوں

قلم کو میں عطر دان کرلوں تو نعت لکھوں


میں فنِّ شعروسخن کا ادنیٰ سا طفلِ مکتب

ذرا سا فن کو جوان کر لوں تو نعت لکھوں


درودِ اقدس کے پھول اُن پر نثار کر کے

معطر اپنی زبان کر لوں تو نعت لکھوں


بھری ہے خطروں سے راہِ نعتِ رسولِ اکرم

نبی سے عہدِ امان کر لوں تو نعت لکھوں


گلاب جل کی پلا کے اس کو میں روشنائی

قلم کی گیلی زبان کر لوں تو نعت لکھوں


فضائے نعتِ نبی بلند و وسیع تر ہے

شفیقؔ ویسی اڑان کر لوں تو نعت لکھوں

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

بے رنگ ہوچکا ہے غزل سے وفا کا رنگ

تم چاہے جہاں سے بھی ہو آیات اُٹھا لو

بھولا نہیں مسجد کے وہ مینار مِرا دل

بے مثل ہے سماعتِ آقائے دو جہاں

وابستہ ہو گئے ہیں تِرے آستاں سے ہم

نہیں ہے تابِ نظّارہ شہِ ابرار کو دیکھیں

جس سے مراد مدحتِ شاہِ اُمم نہیں

عالم نثار جن پر تشریف لا رہے ہیں

مصطفےٰ پیارے کا جب ہوگا نظارا حشر میں

اس پہ ایمان بھی ایقان بھی ہم رکھتے ہیں