اس پہ ایمان بھی ایقان بھی ہم رکھتے ہیں

اس پہ ایمان بھی ایقان بھی ہم رکھتے ہیں

غیب کا علم شہنشاہِ امم رکھتے ہیں


خوف رکھتے ہیں زمانے کا نہ غم رکھتے ہیں

دل میں عشقِ شہِ ابرار جو ہم رکھتے ہیں


بات ایسی کہ ہر اک بات میں دم رکھتے ہیں

ہم بس اقوالِ شہنشاہِ امم رکھتے ہیں


سر اٹھاتے نہیں طوفان ہمارے آگے

فیضِ عشقِ شہِ لولاک سے، خم رکھتے ہیں


اس طرح دل کو بناتے ہیں مدینہ ان کا

دل میں آقا کی تمناؤں کو ہم رکھتے ہیں


کر تے رہتے ہیں مگر جیسا کہ حق ہے اس کا

ہم سے ممکن نہیں توصیف، قلم رکھتے ہیں


یونہی آتے نہیں تبریک کے گلدستے شفیقؔ

ہم بھی اشعار میں خوشبوئے حرم رکھتے ہیں

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

خیر مقدم کو نکل آیا ہے اشکوں کاجلوس

نہیں ہے تابِ نظّارہ شہِ ابرار کو دیکھیں

جس سے مراد مدحتِ شاہِ اُمم نہیں

عالم نثار جن پر تشریف لا رہے ہیں

مصطفےٰ پیارے کا جب ہوگا نظارا حشر میں

آئیے اس نور والی ذات کا چرچا کریں

حسنِ سرکار کا جو لے کے نمک جاتے ہیں

آ گیا ماہِ محبت کا مہینہ دل میں

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

سجائے ہوئے سر پہ تاجِ شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں