اس پہ ایمان بھی ایقان بھی ہم رکھتے ہیں
غیب کا علم شہنشاہِ امم رکھتے ہیں
خوف رکھتے ہیں زمانے کا نہ غم رکھتے ہیں
دل میں عشقِ شہِ ابرار جو ہم رکھتے ہیں
بات ایسی کہ ہر اک بات میں دم رکھتے ہیں
ہم بس اقوالِ شہنشاہِ امم رکھتے ہیں
سر اٹھاتے نہیں طوفان ہمارے آگے
فیضِ عشقِ شہِ لولاک سے، خم رکھتے ہیں
اس طرح دل کو بناتے ہیں مدینہ ان کا
دل میں آقا کی تمناؤں کو ہم رکھتے ہیں
کر تے رہتے ہیں مگر جیسا کہ حق ہے اس کا
ہم سے ممکن نہیں توصیف، قلم رکھتے ہیں
یونہی آتے نہیں تبریک کے گلدستے شفیقؔ
ہم بھی اشعار میں خوشبوئے حرم رکھتے ہیں
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا