حسنِ سرکار کا جو لے کے نمک جاتے ہیں

حسنِ سرکار کا جو لے کے نمک جاتے ہیں

ظلمتِ قبر میں وہ چہرے چمک جاتے ہیں


پھول ہے جس کا سراپا ہے پسینہ خوشبو

ذکر اس کا ہو تو اطراف مہک جاتے ہیں


کالپی ہو کہ بریلی ہو کہ مارہرہ ہو

راستے سارے ہی سرکار تلک جاتے ہیں


دیکھ کر گنبدِ خضرا کا مِرے گھر طغرا

قافلے رنج و مصائب کے ٹھٹھک جاتے ہیں


وہ رجب ہو کہ ہو ذی الحج کہ ربیع الثانی

سب مہینے مجھے دے دے کے کسک جاتے ہیں


پیش کرتے رہیں سرکار کی خدمت میں شفیقؔ

ڈالیاں لے کے درودوں کی ملک جاتے ہیں

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

جس سے مراد مدحتِ شاہِ اُمم نہیں

عالم نثار جن پر تشریف لا رہے ہیں

مصطفےٰ پیارے کا جب ہوگا نظارا حشر میں

اس پہ ایمان بھی ایقان بھی ہم رکھتے ہیں

آئیے اس نور والی ذات کا چرچا کریں

آ گیا ماہِ محبت کا مہینہ دل میں

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

سجائے ہوئے سر پہ تاجِ شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں

جسمِ آقا کے پسینے کا بدل نا ممکن

شاہ کی نوری ڈگر ہے چپ رہو