سجائے ہوئے سر پہ تاجِ شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں
ادب سے کرو پیش گلہائے مدحت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں
معطر معطر لئے جسمِ اطہر گزرتے جدھر سے ہمارے پیمبر
مہکتے تھے رستے بتاتی تھی نکہت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں
نہ گھبرائو محشر میں اے عاصیو تم سجائے ہوئے اپنے لب پر تبسم
وہ کاندھے پہ ڈالے ردائے شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں
بصارت کہاں ان کے جلووں کو دیکھے ہوئی جاتی ہیں خیرہ ماتھے کی آنکھیں
ادب رکھنا ملحوظ چشمِ بصیرت! حضور آرہے ہیںحضور آ رہے ہیں
نہیں کوئی ثانی نہیں کوئی ہمسر مرے مصطفےٰ سب سے اعلیٰ و برتر
شفیعِ امم وہ سراپائے رحمت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں
میں ہوں رہروِ مسلکِ اعلیٰ حضرت ِمرے قلب میں بھی ہے عشق و محبت
کروں کیوں نہ پھر میں درودوں کی کثرت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں
چلی آئی وہ دیکھو مسعود ساعت رسولِ معظم کا وقتِ ولادت
شفیقؔ آج ہے وجد میں ساری خلقت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا