شاہ کی نوری ڈگر ہے چپ رہو

شاہ کی نوری ڈگر ہے چپ رہو

رہنمائی راہ پر ہے چپ رہو


نکہتوں کا لطف لینا چاہئے

مصطفےٰ کی رہ گزر ہے چپ رہو


آیتِ لاترفعوا پر ہو عمل

شاہِ بحر و بر کا در ہے چپ رہو


مصطفےٰکے درپہ سب اعمالِ خوش

رائیگاں ہونے کا ڈر ہے چپ رہو


لب کشائی کی یہاں حاجت نہیں

مصطفےٰ کو سب خبر ہے چپ رہو


ہے دعاکے ساتھ نامِ مصطفےٰ

اب تو ہونا ہی اثر ہے چپ رہو


مت کہو شہرت کمائی ہے شفیقؔ

نعت گوئی کا ثمر ہے چپ رہو

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

حسنِ سرکار کا جو لے کے نمک جاتے ہیں

آ گیا ماہِ محبت کا مہینہ دل میں

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

سجائے ہوئے سر پہ تاجِ شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں

جسمِ آقا کے پسینے کا بدل نا ممکن

دیکھ کر روضۂِ سرکار کی رعنائی کو

کیسے بیاں ہو شان کما حقہ تِری

بے شک، ہیں بہت، کم نہیں احسانِ مدینہ

مصروف صبح و شام ہیں ان کی عطا کے ہاتھ

کیسے عمر کے کفر کا سر ہو گیا قلم