آئیے اس نور والی ذات کا چرچا کریں

آئیے اس نور والی ذات کا چرچا کریں

گوشہ گوشہ زندگی کا اپنی تابندہ کریں


آرزو ہے پھر طوافِ خانۂِ کعبہ کریں

پھر زیارت ہم ترے دربار کی آقا کریں


مدحتِ آقا کیا کرتے ہیں جیسے ہم یہاں

حشر میں بھی یا خدا ہم مدحتِ آقا کریں


میں درودِ پاک پڑھ کردیکھ لوں بس اک نظر

کیا عجب ہے مشکلیں آکر مجھے سجدہ کریں


روضۂِ پُر نور ہو پیشِ نظر یا مصطفےٰ

اور آنکھوں کے لبوں سے ہم اُسے چوما کریں


ہم غلامِ مصطفےٰ ہیں ہم سے یہ ممکن نہیں

’’ لڑکھڑائیں اور اپنے دین کو رسوا کریں ‘‘


باندھ کر احرامِ عشقِ مصطفےٰ چلئے شفیقؔ

پھر تصور میں طوافِ گنبدِ خضرا کریں

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

نہیں ہے تابِ نظّارہ شہِ ابرار کو دیکھیں

جس سے مراد مدحتِ شاہِ اُمم نہیں

عالم نثار جن پر تشریف لا رہے ہیں

مصطفےٰ پیارے کا جب ہوگا نظارا حشر میں

اس پہ ایمان بھی ایقان بھی ہم رکھتے ہیں

حسنِ سرکار کا جو لے کے نمک جاتے ہیں

آ گیا ماہِ محبت کا مہینہ دل میں

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

سجائے ہوئے سر پہ تاجِ شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں

جسمِ آقا کے پسینے کا بدل نا ممکن