دیر جتنی اشکِ خوں سے آنکھ تر ہونے میں ہے

دیر جتنی اشکِ خوں سے آنکھ تر ہونے میں ہے

اس سے کم طیبہ کی سمت اذنِ سفر ہونے میں ہے


کر لیا ہے جب درودی رتجگے کا اہتمام

دیر پھر کیسی شبِ غم کی سَحر ہونے میں ہے


دھیان رہتا ہے تو صبح و شام رحمت کی طرف

لذت وراحت عجب بے بال و پر ہونے میں ہے


تپتےصحرا میں ہو میری جاں کو حاصل کس طرح

نم جو درکار اس شجر کے بارور ہونے میں ہے


جانے کیا احوالِ امّت کے بدلنے میں ہے دیر

جانے کیا حائل دعا کے پُر اثر ہونے میں ہے


کب بہار آئے گی تائبؔ آرزو کے دشت میں

کیا خبر کیا دیر رحمت کی نظر ہونے میں ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

اے رسولِؐ خدا اے رسولِؐ خدا

نور ہی نور اسلام ہے انؐ کا

کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا

معصومیت کا ہالا بچپن مرے نبیؐ کا

وہ نورِ جاں افق آرا ہوا ہے

مہکا ہوا ہے جس سے جہاں کا چمن تمام

مصطفؐےٰ کی شکل میں حق کا جمال آیا نظر

میں یہ سمجھوں گا کہ آنکھوں کی نمی کام آگئی

سر کو جھکائے ہے فلک ان کے سلام کے لیے

سانس میں ہے رواں میرا زندہ نبی ؐ