وہ نورِ جاں افق آرا ہوا ہے

وہ نورِ جاں افق آرا ہوا ہے

ہر اک غنچہ ثنا پیرا ہوا ہے


اُتر آیا ہے کیسا موسمِ گل

بہاراں آشنا صحرا ہوا ہے


منڈیر اپنی ہے روشن جس کے اوپر

دیا اُس نام کا رکھا ہوا ہے


محبِ انس و جاں کی ہے محبت

وہ جس سے میرا دل پگھلا ہوا ہے


جدا کعبےسے ہوتے ہیں محمدؐ

یہ منظر آنکھ میں ٹھیرا ہوا ہے


رفیقِ ثور کو پا کر پریشاں

پئے تسکیں کوئی گویا ہوا ہے


تکے جاتی ہے اس کو امِّ معبد

جو مہتاب اس کے گھر اترا ہوا ہے


ثنیہ سےاُدھر کچھ بچیوں نے

خوشی کا زمزمہ چھیڑا ہوا ہے


مدینے میں ہے کس کا خیر مقدم

ہر اک نے بابِ دل کھولا ہوا ہے


مرے سرکارؐ ہی کے دم قدم سے

مزاجِ زندگی بدلا ہوا ہے


انہی کا خوانِ رحمت ہے جو تائبؔ

افق سے افق تا افق پھیلا ہوا ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

یا رسول اللہ انظر حالنا

اے رسولِؐ خدا اے رسولِؐ خدا

نور ہی نور اسلام ہے انؐ کا

کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا

معصومیت کا ہالا بچپن مرے نبیؐ کا

دیر جتنی اشکِ خوں سے آنکھ تر ہونے میں ہے

مہکا ہوا ہے جس سے جہاں کا چمن تمام

مصطفؐےٰ کی شکل میں حق کا جمال آیا نظر

میں یہ سمجھوں گا کہ آنکھوں کی نمی کام آگئی

سر کو جھکائے ہے فلک ان کے سلام کے لیے