دور آنکھوں سے در نہ جائے کہیں

دور آنکھوں سے در نہ جائے کہیں

خلد منظر گزر نہ جائے کہیں


بعد مدّت کے طیبہ آیا ہوں

پھر مقدّر بکھر نہ جائے کہیں


ان کے نعلین پر ہے آنکھ جمی

اور جانب نظر نہ جائے کہیں


چھپ کے بیٹھا ہوں خوفِ عصیاں سے

رو سیہ کی خبر نہ جائے کہیں


آدمی آئے ان کے روضے پر

’’اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں‘‘


پڑھ درود ان پہ ، ذکر کر ان کا

نشّۂ عشق اتر نہ جائے کہیں


بات کرتے ہو کیوں پلٹنے کی

زائر طیبہ مر نہ جائے کہیں


پیشِ روضہ جو روح تک اترا

کیفِ جنت اثر نہ جائے کہیں


کشتیِ جاں پہ ہو نگاہِ کرم

غم سمندر بپھر نہ جائے کہیں


جاگ طاہرؔ! ہو ان کا نعت سرا

رات یوں ہی گزر نہ جائے کہیں

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

خانہ کعبہ کی طرف جھکتے ہیں ہم

بھاگتی تھی ڈھونڈنے پانی کو ماں

شہرِ آقاؐ کو میں روانہ ہوں

یادِ نبیؐ کی کرتی آئینہ داری راتیں

نعت شانِ رسولِؐ اکرم میں

نعت حال لوگوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں

در عطا کے کھلتے ہیں

زمینِ شہرِ طیبہ پر ستارے ہی ستارے ہیں

نعت کے صحیفے ہیں

مضموں میں جس کے حبِ شہِؐ دوسرا نہیں