نعت حال لوگوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں

نعت حال لوگوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں

لوگ کیوں فرشتوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں


نشۂ حضوری سے جو کبھی نہیں نکلے

بے قصور رندوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں


کیا حضورؐ سے کہ دوں ! کیا میں ان کو بتلا دوں!

یہ تمھارے بردوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں


آسمان کا تھوکا منھ پہ آ کے گرتا ہے

آپ چاند تاروں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں!


ہیں غلام آقاؐ کے ، کام ہے غلامی سے

کس لیے غلاموں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں؟


انگلیوں کو تسبیحیں ہم بناتے ہیں تو کیوں

انگلیوں کی پوروں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں


محرمِ مدینہ ہیں جو حرم کے ہیں محرم

کون ایسے نیکوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں


گر ہے نعت پر کوئی ، معترض تو غم نہ کر

لوگ تو صحیفوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں


طاہرؔ آج کل کے لوگ فرطِ عشقِ شاہؐ پہ

اور نیک جذبوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

بھاگتی تھی ڈھونڈنے پانی کو ماں

شہرِ آقاؐ کو میں روانہ ہوں

یادِ نبیؐ کی کرتی آئینہ داری راتیں

نعت شانِ رسولِؐ اکرم میں

دور آنکھوں سے در نہ جائے کہیں

در عطا کے کھلتے ہیں

زمینِ شہرِ طیبہ پر ستارے ہی ستارے ہیں

نعت کے صحیفے ہیں

مضموں میں جس کے حبِ شہِؐ دوسرا نہیں

وداعِ طیبہ پہ آنکھوں سے جو گرے آنسو