حبیب کبریا کے دہر میں تشریف لانے پر

حبیب کبریا کے دہر میں تشریف لانے پر

اندھیرے چھٹ گئے انوار برسے ہیں زمانے پر


شعور آگہی بخشا ہے جن کی ذات والا نے

بتان دہر اوندھے منہ گرے ہیں ان کے آنے پر


میں اکثر سوچتا ہوں اس گھڑی کیا کیفیت ہوگی

اچانک جب میں پہنچوں گا نبی کے آستانے پر


پرندے صبح دم صل علی کا ورد کرتے ہیں

تو کرنیں نور برساتی ہیں ان کے آشیانے پر


نظر کو ماورائے دولت کونین پاتا ہوں

جھکا ہے جب سے دل مختار کل کے آستانے پر


مرے گھر میں قدم رنجہ ہوئے محبوب سبحانی

یہ نعمت میں نے پائی کعبہ دل کو سجانے پر


حمید! الطاف کے گوہر مجھے سرکار نے بخشے

حدیث درد و غم اشکوں کے لہجے میں سنانے پر

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

ایسا کوئی محبوب نہ ہو گا نہ کہیں ہے

رواں ہے کاروانِ رنگ و بو سرکار کے دم سے

عشق احمدﷺ چاہیئے، حُب مدینہ چاہئے

سبز گنبد کے سائے میں بیٹھا رہوں

میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم، اے شفیع الواری، خاتم الانبیاء

پھر آنے لگیں شہر محبت کی ہوائیں

قرآں کی زباں خود ہے ثنا خواں محمدﷺ

سر محفل کرم اتنا مرے سرکار ہو جائے

سلام اس پر خدا کے بعد جس کی شان یکتا ہے