رواں ہے کاروانِ رنگ و بو سرکار کے دم سے

رواں ہے کاروانِ رنگ و بو سرکار کے دم سے

دو عالم کی رگوں میں ہے لہو سرکار کے دم سے


کریں ہم کیوں نہ ہم اپنی آبرو سرکار پر قرباں

کہ قائم ہے ہماری آبرو سرکار کے دم سے


وہ محبوب خدا ہیں ، وجہ تخلیق دو عالم ہیں

ہوئے آباد سارے کاہ و کُو سرکار کے دم سے


انہیں کے نور سے یہ محفل ہستی ہوئی روشن

چراغاں ہے جہاں میں چار سُو سرکار کے دم سے


لگن بخشی ہمیں سرکار نے ابطال باطل کی

شعار اپنا ہے حق کی جستجو سرکار کے دم سے


رسول پاک کی نعتیں نہ کیوں محمود ہم گائیں

ملا ہے تم کو ذوق گفتگو سرکار کے دم سے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

خلق کے سرور ، شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم

جو فردوس تصور ہیں وہ منظر یاد آتے ہیں

حق نگر آپ ہیں حق نما آپ ہیں

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

ایسا کوئی محبوب نہ ہو گا نہ کہیں ہے

عشق احمدﷺ چاہیئے، حُب مدینہ چاہئے

سبز گنبد کے سائے میں بیٹھا رہوں

حبیب کبریا کے دہر میں تشریف لانے پر

میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم، اے شفیع الواری، خاتم الانبیاء

پھر آنے لگیں شہر محبت کی ہوائیں