جو غلامِ شہِ ابرار ہُوا خوب ہُوا

جو غلامِ شہِ ابرار ہُوا خوب ہُوا

وقت کا اپنے وہ سردار ہُوا خوب ہُوا


ان کے در کا جو نمک خوار ہوا خوب ہوا

اس کی ٹھوکر میں یہ سنسار ہوا خوب ہُوا


گنبدِ سبز پُر انوار ہُوا خوب ہُوا

رشکِ فردوس وہ دربار ہُوا خوب ہُوا


مُسکرا دے جو اندھیرے میں سُوئی مِل جائے

شاہِ دِیں منبعِ انوار ہُوا خوب ہُوا


طائرِ سِدرہ اگر جائیں تو پر جل جائیں

جانا سرکار کا اُس پار ہُوا خوب ہُوا


مرحمت اس کو سبھی عِلمِ خفی اور جلی

خوب ہر شے سے خبردار ہُوا خوب ُہُوا


ورفعنا لک ذِکرک کی بہاریں دیکھو

ذکرِ سرکار چمکدار ہُوا خوب ہُوا


سرِ بالیں جو اگر دیکھنے کو وہ آئیں

کتنا خوش بخت وہ بیمار ہُوا خوب ہُوا


پیروی اُن کی کرے جو بھی ہدایت پائے

میرے سرکار کا جو یار ہُوا خوب ہُوا


ان کے قدموں میں گِرے خون کے پیاسے آ کر

شاہِ کونین کا کردار ہُوا خوب ہُوا


مدحتِ شاہ میں مِنقار جو مرزا کے کُھلے

ان کی رحمت کا یہ حقدار ہُوا خوب ہُوا

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

ہوئیں آرائشیں جو اِس قدر سارے زمانے کی

دل سے جو غلامِ شہِ ذیشاں نہیں ہوگا

مجھے دنیا کے رنج و غم نے مارا یا رسول اللہ

کرم اللہ کا ہم پر عنایت مصطفیٰ کی ہے

ہوگئی سرکار کی جلوہ گری

طلعتِ رُخ سے لحد میں چاندنا فرمائیے

فضلِ ربُ العُلیٰ حضور آئے

میرے نبی کی پیاری باتیں

میں اُن کا ہُوں گدا الحمد للہ

سرورِ ذیشان شاہِ انبیاء یعنی کہ آپ