دل سے جو غلامِ شہِ ذیشاں نہیں ہوگا

دل سے جو غلامِ شہِ ذیشاں نہیں ہوگا

واللہ کبھی خُلد کا مہماں نہیں ہوگا


کامل کبھی اُس شخص کا ایماں نہیں ہوگا

گستاخِ نبی سے جو گُریزاں نہیں ہوگا


گر سامنے اُن کا رُخِ تاباں نہیں ہوگا

مرنا بھی ہمارے لئے آساں نہیں ہوگا


یادِ شہِ بطحا سے جو دل ہوگا مُزین

آباد رہے گا کبھی ویراں نہیں ہوگا


آقا کی محبت میں گزارے جو شب و روز

وہ گور میں محشر میں پشیماں نہیں ہوگا


سرکار کرم طیبہ سے میں دُور پڑا ہُوں

کب تک مرے دُکھ درد کا درماں نہیں ہوگا


میں سخت گنہ گار ہوں لِلٰہ شفاعت

رحمت کا شہا آپ کی نقصاں نہیں ہوگا


محبوبِ خدا کو جو کوئی دل سے پُکارے

طوفان کی موجوں میں وہ غَلطاں نہیں ہوگا


رحمت کی بہار آئے مرے اُجڑے چمن میں

کیا مجھ پہ مرے شاہ یہ احساں نہیں ہوگا


دے کے نہیں لینا ہے کریموں کا طریقہ

مرزا ترا زاِئل کبھی ایماں نہیں ہوگا

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

میرے سرور میرے دلبر

مِدحتِ نورِ مجسم کیا کریں

مصطفیٰ خیرالوریٰ ہیں آپ ہی شاہِ زمن

نظر تم سا نہیں آتا نظر ڈالے جہاں کوئی

ہوئیں آرائشیں جو اِس قدر سارے زمانے کی

مجھے دنیا کے رنج و غم نے مارا یا رسول اللہ

کرم اللہ کا ہم پر عنایت مصطفیٰ کی ہے

ہوگئی سرکار کی جلوہ گری

جو غلامِ شہِ ابرار ہُوا خوب ہُوا

طلعتِ رُخ سے لحد میں چاندنا فرمائیے