نظر تم سا نہیں آتا نظر ڈالے جہاں کوئی

نظر تم سا نہیں آتا نظر ڈالے جہاں کوئی

ِادھر کوئی اُدھر کوئی یہاں نہ اور وہاں کوئی


نہیں مُمکن کبھی بھی مِثل شاہِ دو جہاں کوئی

بنایا ہی نہیں رب نے تو پھر ہوتا کہاں کوئی


ہر اک مخلوق کی جانب ہوئے مبعوث ہیں آقا

سمجھتے ہیں سبھی کی بولیاں بولے زباں کوئی


خدا نے اختیار ایسا سماعت وہ عطا کی ہے

مرے سرکار سنتے ہیں پُکارے جب جہاں کوئی


خدا کو آپ کی تخلیق گر مقصود نہ ہوتی

زمیں ہوتی زماں ہوتا نہ ہوتا آسماں کوئی


اُحد کا زلزلہ رُخصت ہوا ٹھوکر لگانے سے

زمانے میں دکھا دے اِس طرح کی ایڑیاں کوئی


سبھی اہل فصاحت دنگ ہیں سُن کر کلام اُن کا

سُخن ہے دلنشیں ایسا نہیں جس کا بیاں کوئی


خدائے پاک بھی نہ جب چُھپا شاہِ مدینہ سے

تو ہوتا کس طرح سے غیب ان سے کچھ نِہاں کوئی


بُلندی یُوں تو اوروں کو بھی کی حق نے عطا لیکن

سِوا اُن کے نہیں ہرگز مکینِ لامکاں کوئی


شفاعت عاصیوں کی گر نہ فرمائیں وہ محشر میں

اماں ہرگز نہیں پائے گا کبھی بھی بے اماں کوئی


مرادیں لے کے جاتے ہیں سبھی شاہ و گدا اپنی

نہ ایسا در زمانے میں نہ ایسا آستاں کوئی


خدائے پاک جب کرتا ہے خُود مدحت پیمبر کی

ہے ممکن کب کسی سے کر سکے مِدحت بیاں کوئی


ہیں رہبر نعت میں مرزا فقط حسان ہی سب کے

بوصیری سعدی و جا می ہو یا کے نغمہ خواں کوئی

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

دو جہاں میں غیر ممکن ہے مثالِ مصطفیٰ

حق سے بندوں کو ملایا آپ نے

میرے سرور میرے دلبر

مِدحتِ نورِ مجسم کیا کریں

مصطفیٰ خیرالوریٰ ہیں آپ ہی شاہِ زمن

ہوئیں آرائشیں جو اِس قدر سارے زمانے کی

دل سے جو غلامِ شہِ ذیشاں نہیں ہوگا

مجھے دنیا کے رنج و غم نے مارا یا رسول اللہ

کرم اللہ کا ہم پر عنایت مصطفیٰ کی ہے

ہوگئی سرکار کی جلوہ گری