مِدحتِ نورِ مجسم کیا کریں

مِدحتِ نورِ مجسم کیا کریں

خود کرے جب حق بیاں ہم کیا کریں


ہو نظر جن کی مدینے کی طرف

دیکھ کر وہ حُسنِ عالم کیا کریں


اُن کی چوکھٹ کے گدا ہیں خیر سے

جستجوئے قیصر و جم کیا کریں


سر ہو خم جن کا درِ سرکار پر

غیر کے آگے جبیں خم کیا کریں


دستگیری کو مرے سرکار ہیں

خوفِ عُقبیٰ نار کا غم کیا کریں


ان کے ہاتھوں سے ملے بس ایک جام

آرزوئے جامِ جم ہم کیا کریں


فضلِ رب سے سب عیاں ہیں شاہ پر

حاِل دل سے اُن کو مِحرم کیا کریں


زخمِ طیبہ عاشقوں کو ہے عزیز

خوش نصیب اب اِس کا مرہم کیا کریں


اشکباری اُن کی اُلفت میں رہے

آنکھ حُبِّ دہر میں نم کیا کریں


ہو کرم عصیاں کا آقا سلسلہ

بڑھ رہا ہے آہ ہر دم کیا کریں


ہوں وہ راضی ایسے مرزا کام کر

کیا کہے جاتا ہے ہر دم کیا کریں

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

سرکار کی آمد ہے رحمت کی گھٹا چھائی

سرورِ انبیاء آگئے

دو جہاں میں غیر ممکن ہے مثالِ مصطفیٰ

حق سے بندوں کو ملایا آپ نے

میرے سرور میرے دلبر

مصطفیٰ خیرالوریٰ ہیں آپ ہی شاہِ زمن

نظر تم سا نہیں آتا نظر ڈالے جہاں کوئی

ہوئیں آرائشیں جو اِس قدر سارے زمانے کی

دل سے جو غلامِ شہِ ذیشاں نہیں ہوگا

مجھے دنیا کے رنج و غم نے مارا یا رسول اللہ