ملے ‘ جو مجھ سے کوئی برہمی سے ملتا ہے

ملے ‘ جو مجھ سے کوئی برہمی سے ملتا ہے

گدائے طیبہ تو مجھ سے خوشی سے ملتا ہے


میں اس امید پہ آنکھیں بُجھائے بیٹھا ہوں

کہ روشنی کا پتہ تیرگی سے ملتا ہے


شعور زیست کتابوں میں ڈھونڈنے والو

شعورِ زیست تو عشقِ نبی ﷺ سے ملتا ہے


جسے خلوصِ عقیدت کا نام دیتے ہو

وہ خود روی سے نہیں ‘ پیروی سے ملتا ہے


وہ جانتا ہے تقلیدِ مصطفیٰ ﷺ کیا ہے

جو دوستوں کی طرح اجنبی سے ملتا ہے


اس آدمی کے مراتب بشر کو کیا معلوم

خدا بھی عرش پہ جس آدمی سے ملتا ہے


نقوش پائے محمد ﷺ ہوں جس گلی کو نصیب

سراغِ عظمتِ آدم اِسی سے ملتا ہے


وہ راستہ جو پہنچتا ہے عرش و کرسی تک

براہِ کعبہ انہیں کی گلی سے ملتا ہے


غزل سرائی سے اقبال وہ کہاں حاصل

سرور و کیف جو ذکرِ نبی ﷺ سے ملتا ہے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

نقاب شب عروس مہر نے چہرے سے سرکائی

اللہ اللہ مدینے کی راہیں

شمعِ بدرالدجیٰ ﷺ پھر جلادو

وہ آستانِ پاک کہا ں ‘ میرا سر کہاں

محمد مصطفےٰ ﷺ صَلِ علیٰ تشریف لے آئے

ہیں محمد ﷺ روحِ حیات

سرورِ دین و شہنشاہ اُمم

کرتے ہیں عرض حال زبانِ قلم سے ہم

اے امامِ عارفین و سالکیں

عطا ہوئی ہے ہمیں اس لئے پناہِ رسول ﷺ