ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

ہر اک آتش کدہ افسوس سے بھرنے لگا آہیں


یہ کیسا انقلاب آیا کہ آتش بن گیا پانی

ترے انوار اک زندہ شہادت کی طرح روشن


نگاہِ کفر و ظلمت ہو گئی اندھی

نگام کفر نے انوار کی بارش نہیں دیکھی


سماعت چھین لی کفار کی رعد ولادت نے

شہاب سرخ کی مانند شعلوں کی ہوئی بارش


کہ جن کے خوف سے بت گر پڑے بے اختیاری میں

شیاطین اس طرح بھاگے کہ جیسے ابرہہ کی فوج بھاگی تھی

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

مرے غربت کدے میں جب رسول اللہ آتے تھے

کرب کی رات میں اک نام سہارا تو بنا

ہر منظر مدينہ ختم الرسل کا عکس

خلوت كده دل گل خندان محمد

نبی محتشم ! تیرا گدائے بے نوا کشفی

تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

کتاب معتبر سب سے بڑا ہے معجزہ تیرا

وہی ذاتِ مبارک آیت معراج انسان ہے

حنین و بدر کے میدان شاہد ہیں

کبھی اہل دول کے سامنے دامن کو پھیلایا