تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

ترے ساتھی تھے ابر رحم کے ٹکڑے


جو تیرے ساتھ چلتے تھے

تو ان کا سایہ تھا وہ سائے تھے تیرے


ترے قلب منور سے جو نسبت تھی

اُسی سے چاند روشن ہے


زمانے نے ستم جب بھی کیا مجھ پر

ترے دامانِ رحمت میں جگہ ڈھونڈھی


ترے دست مبارک نے غنی تر کر دیا مجھ کو

زمانہ کیا مجھے دے گا


میں تیرے در کا سائل ہوں

ترا قلب مبارک خواب کی وادی میں کب سویا


نبوت کی صداقت کی نشانی خواب تھا تیرا

ہر اک لمحہ تری دعوت کا جیسے آیت کبری


وہ آیت جو سپیدی کو سیاہی سے جدا کر دے

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

کرب کی رات میں اک نام سہارا تو بنا

ہر منظر مدينہ ختم الرسل کا عکس

خلوت كده دل گل خندان محمد

نبی محتشم ! تیرا گدائے بے نوا کشفی

ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

کتاب معتبر سب سے بڑا ہے معجزہ تیرا

وہی ذاتِ مبارک آیت معراج انسان ہے

حنین و بدر کے میدان شاہد ہیں

کبھی اہل دول کے سامنے دامن کو پھیلایا

خداوند امحمد مصطفیٰ کے ابر رحمت کو