نبی محتشم ! تیرا گدائے بے نوا کشفی
بہ چشم نم ترے دامن کا سایہ ڈھونڈھنے آیا
ہر اک جذبہ ہے میرا شعلہ بے باک کے مانند
جسے اشک ندامت سے ترے دربار میں دھولوں
مری آنکھیں مرے عجز و ندامت کی گواہی ہیں
تری عصمت مرے ہر جرم کو سنگین بناتی ہے
عبادت کی شب بیدار میں قدموں پہ سوجن تھی
ادھر میں ہوں کہ اکثر نیند کے جھوٹے تقاضوں پر
سجودِ شوق کو چھوڑا
محمد سید الکونین ! تو ہے آمر و ناہی
ترا ہر قول سچا ہے
شفاعت کی توقع تیرے دامن تک مجھے لائی
ترا دامن کسی مضبوط رستی کی طرح اب ہاتھ میں آیا
یہ رسی جادہ راہِ صفا معلوم ہوتی ہے
حبیب کبریا رتبہ کسے معلوم ہے تیرا
تری شفقت نے حیرانی کے ہر گرداب کو ساحل بنا ڈالا
تری قربت میں دوری کس قدر بے چین رکھتی ہے
تری دوری میں قربت کی ادا تسکین جان دیدہ و دل ہے
تر اخلق مجسم پر توئے اسمائے حسنی ہے
شرف میں بدر کامل کی طرح یکتا
شگوفے کی طرح آغوش خوشبو ہے
ترا جود و کرم دریا کی موجوں کی طرح وافر
تری ہمت مثال ”دہر" ہے گویا
ترے الفاظ روح نطق انسانی
تبسم جیسے آویزہ ہے گوشِ حُسنِ آدم کا
وہ خاک جسم طاہر خالق خوشبوئے بے پایاں
مشام جاں معطر ہو گیا جس سے
شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی
کتاب کا نام :- نسبت