علم کے شہر ہوں در پر حاضر

علم کے شہر ہوں در پر حاضر

آرزو سب سے جدا لایا ہوں


بھیک تاثیر کی مجھ کو مل جائے

کاسہء حرف و نوا لایا ہوں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

نہیں بے مُدّعا تخلیقِ انساں

پھوٹا تھا جو کبھی کسی نیزے کی نوک سے

سارے جھنڈوں میں ان کا جھنڈا ہی

کیوں نہ ہو حفظ زندگی اُن کی

لے اڑیں گے ہواؤں کے جھونکے

غنچے ترے اذکار سے کھل جاتے ہیں

جو نمازیں پڑھاکرے نفلی

اُس کا ہر سانس اک سبق ٹھہرا

وہ اونچا گنبد جس کو برکاتی گنبد کہتے ہیں

آ دیکھ کربلا کو بشر کے شعور میں