آئے نظر جو وہ رُخِ قرآن کسی دن

آئے نظر جو وہ رُخِ قرآن کسی دن

آئینہ بنے دیدہء حیران کسی دن


ہنس ہنس کے نہ دیکھیں مجھے یہ عازمِ طیبہ

نکلے گا مرے دل کا بھی ارمان کسی دن


میں آ نہیں سکتا تو حضور آپ بلائیں

احسانوں پر اک اور بھی احسان کسی دن


موجوں سے جو ہوتی رہیں سرکار کی باتیں

ساحل پہ مجھے لائے گا طوفان کسی دن


یوں ہی رہا جو وردِ زباں نامِ محمد

ہو جائیں گے سب مشکلیں آسان کسی دن


ہر ایک مَلک کہتا تھا اور روزِ ازل سے

زینت دہِ عرش ہوگا اِک انسان کسی دن


سرکار دکھائیں مجھے طیبہ کے نظارے

مرجاؤں نہ در وادئ مہران کسی دن


حسّان کے صدقے میں صبیحؔ جگر افگار

بن جاؤں گا میں نائبِ حسّان کسی دن

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

گل و لالہ کی تحریروں میں بس فکرِ رسا تُو ہے

سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی

خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا

وہ ہے رسُول میرا

دلِ عشاق شہرِ نور سے آیا نہیں کرتے

آپ آئے ہوئے دوجہاں ضوفشاں

دلوں کے ساتھ جبینیں جو خم نہیں کرتے

لب پر مرے حضور کی مدحت سدا رہے

اے خدا مجھ کو مدینے کا گدا گر کردے

پنجابی ترجمہ: تنم فرسُودہ جاں پارہ ز ہِجراں یارسُولؐ اللہ