خاکِ درِ حضرت جو مرے رُخ پہ ملی ہے

خاکِ درِ حضرت جو مرے رُخ پہ ملی ہے

یہ فیض یہ عظمت مرا حقِ ازلی ہے


جنّت کے لیے مرتے ہو کیوں اہلِ محبت

جنّت کی بھی جنّت مرے آقا کی گلی ہے


انساں پہ کُھلے کیسے مقام ِ شہِ کونین

یہ راز حقیقت ہے خفی ہے نہ جلی ہے


آنکھوں سے نہیں اُٹھتی چمک اُٹھتی ہے دل میں

گردِ رہِ طیبہ نہیں سونے کی ڈلی ہے


کردارِ نبی پوچھیے صدیق و عمر سے

ایک ایک ادا نور کے سانچے میں ڈھلی ہے


اے حضرتِ موسیٰ ! یہ بڑے ہوش کا ہے کام

یہ وادئ سینا نہیں طیبہ کی گلی ہے


ہم دیکھ کے بھی دیکھ نہیں سکتے وہ جلوے

دیدِ نبوی نازِ الہٰی کی پلی ہے


کیا مدح ہو اس گھر کی صبیحِؔ جگر افگار

جس گھر کا ہر اِک بچہ ولی ابنِ ولی ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی

اُن کا چہرہ ، کتاب کی باتیں

حسیں ہیں بہت اس زمیں آسماں پر

بَکارِ خَویْش حَیرانَم اَغِثْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللہ

اے قضاء ٹھہرجا اُن سے کرلوں زرا

کرم کے آشیانے کی کیا بات ہے

گر وقت آ پڑا ھےمایوس کیوں کھڑا ھے

محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

مانا مِرے عیوب کا دفتر بھی ہے بڑا

حسینؑ ابنِ علی تجھ پر شہادت ناز کرتی ہے