بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو

بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو

لفظ خوش بُو ہوں، خیالات میں رعنائی ہو


ہو اگر بزم ترا نام رہے وردِ زباں

تجھ کو سوچوں جو میسر کبھی تنہائی ہو


وادئ جاں میں پڑاؤ ہو تری خوشبو کا

حجرۂ دل میں تری انجمن آرائی ہو


چاک کرتی ہیں قبا، فرطِ ہوا سے کلیاں

اے صبا! کوچۂ دل دار سے ہو آئی ہو ؟


وہ تکلّم کہ جسے حسنِ سماعت ترسے

وہ تبسّم کہ ہر اک پھول تمنّائی ہو


ناقہء شوق اس انداز سے طے ہو یہ سفر

لَے حجازی ہو تری، زمزمہ صحرائی ہو


کس نے دیکھا ہے بہم شام و سحر کو شاکر

ہاں اگر زلف وہ رخسار پہ لہرائی ہو

کتاب کا نام :- چراغ

آہ! ہر لمحہ گنَہ کی کثرت اور بھرمار ہے

ذاتِ نبی کو قلب سے اپنا بنائیے

یہ دنیا ایک سمندر ہے مگر ساحِل مدینہ ہے

یادوں میں وہ شہرِ مدینہ

آخر نگہ میں گُنبدِ اَخضَر بھی آئے گا

اس طرح تُو نے ہر انساں سے محبّت

دو عالم کے آقا سلام علیکم

زمین و زماں تمہارے لئے

یکتا ہے ترا طرزِ عمل ، احمدِؐ مرسل

!کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یارب