پھر گلستانِ تخیّل میں کھلا تازہ گلاب

پھر گلستانِ تخیّل میں کھلا تازہ گلاب

پھر ملا ہے مدحتِ سرورؐ کا حرفِ مستجاب


پھر وفورِ شوقِ مدحت سے قلم چلنے لگا

پھر حروفِ اِسمِ احمدؐ سے ہوا ہے اکتساب


مدعائے دل کو پھر ملنے لگے اظہاریے

پھر مرا حرفِ تمنا ہو رہا ہے باریاب


ہو حریفِ جلوۂ حسنِ مکمل کس کو تاب

پرتوِ روئے نبی سے آئنے ہیں آب آب


تابشِ خورشیدِ محشر منہ چھپا کر رہ گئی

عاصیو، سایہ فگن ہے ان کی رحمت کا سحاب


آتشِ رنج و الم گل زار مجھ پر ہو گئی

دھوپ چھاؤں بن گئی ہے، ہو گیا سورج سحاب


چہرۂ انور سے اپنے وہ اٹھا تو دیں نقاب

نور کی کیا لا سکے گا دیدۂ بے تاب، تاب؟


ذرّہ ذرّہ عالمِ امکاں کا روشن ہو گیا

مطلعِ فاراں سے اُبھرا ہے یہ کیسا آفتاب


جسم و جاں میں ہے غبارِ راہِ طیبہ کی مہک

میں نہیں ہوں اب رہینِ منتِ مُشک و گلاب


از مقامِ مصطفےٰ جز حق کسی آگاہ نیست

ایں قدر دانم دگر واللہ اعلم بالصواب


از خدائے پاک خواہم اجرِ نعتِ مصطفےٰ

عندہ خیر الجزاءِ عندہ حسن المآب


مجھ کو شاکر آتشِ دوزخ سے اب کیا خوف ہو

ہوں غلامِ مصطفےٰؐ حلقہ بگوشِ بو ترابؐ

کتاب کا نام :- چراغ

اے امیرِ حرم! اے شفیعِ اُمم

ترے در توں جدا ہوواں کدی نہ یا رسول اللہ

سب کا پاسباں تُو ہے

امیدیں جاگتی ہیں دل ہیں زندہ گھر سلامت ہیں

اللہ تعالیٰ ہے جہانوں کا اجالا

عاصیوں کو دَر تمہارا مِل گیا

نبی کا اشارہ شجر کو رسائی

ہم میں تشریف لائے وہ شاہِ اُمم

خود ہی تمہید بنے عشق کے افسانے کی

نبیؐ کے پائے اقدس سے ہے