اللہ کرے نصیب ترے خرقہ و کُلاہ

اللہ کرے نصیب ترے خرقہ و کُلاہ

زاہد ہمیں تو شیشہ و پیمانہ چاہیے


عاشق کا کام کیا جو ہو مشغول خلق میں

عشّاق کا تو گھر درِ جانانہ چاہیے


پُوچھے گا گر خدا مجھے کیا چاہیے تجھے

کہہ دوں گا مجھ کو یار کا کاشانہ چاہیے


وصلِ حبیب بیٹھے بٹھائے کہاں نصیب

اس کے لیے تو ہمّتِ مردانہ چاہیے


جبریل ؑ اس لیے ہیں محمّدؐ پہ شیفتہ

ایسی شمع پہ ایسا ہی پروانہ چاہیے


اعظمؔ کو روکتا ہے تو کیوں بزم یار سے

اے نفس باز آ تجھے ایسا نہ چاہیے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

اے قضاء ٹھہرجا اُن سے کرلوں زرا

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

حسیں ہیں بہت اس زمیں آسماں پر

اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

ظلمتِ شب کو تو نے اجالا دیا

ذکر نبی دا کردیاں رہنا چنگا لگدا اے

مرے جذبوں کو نسبت ہے فقط اسمِ محمد سے

تم ہی ہو چین اور قرار اِس دلِ بے قرار میں