دل میں عشق مصطفیٰ کا نوری جوہر رکھ دیا
کیا کِیا چھوٹے سے کوزے میں سمندر رکھ دیا
اب جَلا دیں یا جلا دیں آپ کی مرضی پہ ہے
ہم نے تو بس آپ کی دہلیز پر سر رکھ دیا
آؤ اے شیدائیان مصطفیٰ ہنستے چلیں
پل کے اوپر حضرتِ جبریل نے پر رکھ دیا
نامہء اعمال میں کچھ اور تو نیکی نہ تھی
دل بہ شکلِ عشقِ احمدِ پیشِ داور رکھ دیا
حضرتِ صدیق سے پوچھا کہ کیا لائے ہو تم
منہ سے کچھ بولے نہیں بس قلبِ مضطر رکھ دیا
تا کہ رغبت دوسروں کو نیکیوں کی ہو سکے
ہم نے اک دیپک جلا کر گھر کے باہر رکھ دیا
در حقیقت ہے وجودِ مصطفیٰ اظہارِ ذات
رب نے اک انسان میں لاہوتی پیکر رکھ دیا
جس امانت کو اٹھانے سے سبھی عاجز ہوئے
اس کو رب نے حضرتِ انساں کے اوپر رکھ دیا
میں نے پایا ایک نسخہ غم مٹانے کے لیے
اپنا حالِ دل لکھا قرآں کے اندر رکھ دیا
ماں کے قدموں کے تلے جب میں نے یہ سر رکھ دیا
رب نے حصے میں مرے اونچا مقدر رکھ دیا
سنگسار ہم کو کیا جائے گا جرمِ عشق میں
ہم نے اپنی قبر پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا
پرتوِ کلکِ رضا لاریب نظمی کا قلم
فیض نے ان کے مجھے حسّاں بنا کر رکھ دیا
نعت میں نظمی کو کچھ یوں ہی نہیں شہرت ملی
جذبہء حبِ نبی شعروں کے اندر رکھ دیا
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا