مدحِ سرکار میں نعتیں میں سناتا رہتا

مدحِ سرکار میں نعتیں میں سناتا رہتا

اپنی سوئی ہوئی تقدیر جگاتا رہتا


طیبہ کی راہ میں جو قافلے مجھ کو ملتے

شوقِ دیدار انھیں اپنا دکھاتا رہتا


کیاری جنت کی مجھے دیتی عبادت کا سکوں

ان کی محراب میں سر اپنا جھکاتا رہتا


لوگ کہتے مجھے دیوانہ نبی کے در کا

ہوش کو اپنے میں مستی میں چھپاتا رہتا


بابِ جبریل پہ میں بیٹھتا قدموں کی طرف

ان کے گنبد کو میں آنکھوں میں سماتا رہتا


دعوتِ بوسہ مجھے جالیاں دیتی رہتیں

میں فقط دید سے پیاس اپنی بجھاتا رہتا


پھر مواجہ سے کرن نور کی مجھ تک آتی

نوری برسات میں گھنٹوں میں نہاتا رہتا


حسرتیں پوری مری ہوتیں جو حکمِ رب سے

شکر کا فرض میں دن رات نبھاتا رہتا


کرمِ رب سے جو طیبہ میں جگہ مل جاتی

نظمی لکھ لکھ کے نئی نعتیں سناتا رہتا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

آؤ مدنی قافِلے میں ہم کریں مل کر سفر

خود ہی تمہید بنے عشق کے افسانے کی

سیّدی یا حبیبی مولائی

مرا عقیدہ ہے بعدِ محشر فلک پہ یہ اہتمام ہوگا

مٹتے ہیں جہاں بھر کے آلام مدینے میں

دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ نبی کا

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

ایہہ کون آیا جدِھے آیاں

درِ نبی سے ہے وابسطہ نسبتیں اپنی

تمہاری یاد جو دل کا قرار ہو جائے