درِ اقدس پہ مجھ کو بھی بلائیں گے کسی دن وہ

درِ اقدس پہ مجھ کو بھی بلائیں گے کسی دن وہ

نظر اپنی مری جانب اٹھائیں گے کسی دن وہ


مجھے مرسل سے ملنے کی تڑپ دل میں رلاتی ہے

قمر سے بھی حسیں چہرہ دکھائیں گے کسی دن وہ


وہ سایہ اپنی کملی کا عطا کر کے سرِ محشر

تنی چادر تمازت کی اٹھائیں گے کسی دن وہ


اے پیاسو مصطفیٰ کے گھر کبھی جانا مدینے میں

تو اپنے ہاتھ سے زمزم پلائیں گے کسی دن وہ


کہیں گے انبیا ’’ نفسی‘‘ تو اُس مشکل گھڑی میں پھر

شفاعت کر کے کملی میں چھپائیں گے کسی دن وہ


سنا ہے ملنے آتے ہیں اجل کے بعد مومن کو

لحد پھر تو ارم جیسی بنائیں گے کسی دن وہ


لحد پر گل نچھاور کر کے جانا گھر میں اپنے سب

غریبوں کی لحد بھی وہ سجائیں گے کسی دن وہ


وہ فرمائیں گے یوں اک دن اٹھاؤ میرے قائم کو

مجھے یہ جاں فزا مژدہ سنائیں گے کسی دن وہ

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

کتابِ مدحت میں شاہِ خوباں کی چاہتوں کے گلاب لکھ دوں

تمام دنیا یہاں سلامت تمام عالم وہاں سلامت

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں

کہیں بستی کہیں صحرا نہیں ہے

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

غلام حشر میں جب سیّد الوریٰ کے چلے

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی

مٹھے مٹھے سوہنے تیرے بول کملی والیا

الہٰی واسطہ رحمت کا تُجھ کو

اے کاش وہ دن کب آئیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے