میں اندھیرے میں ہوں ‘ تنویر کہاں سے لاؤں

میں اندھیرے میں ہوں ‘ تنویر کہاں سے لاؤں

چشمِ بیدار کی تقدیر کہاں سے لاؤں


خواب میں روضہ ء اقدس کا نظارہ تو ہوا

لیکن اس خواب کی تعبیر کہاں سے لاؤں


کیسے سمجھاؤں تمہیں کیا تھے خدوخال حضورﷺ

پیکرِ نُور کی تصویر کہاں سے لاؤں


اسو ہء پاک محمد ﷺ کا بیاں کیسے کروں

روحِ قرآن کی تفسیر کہا ں سے لاؤں


توڑ لاؤں میں ستارے بھی فلک سے لیکن

لوح محفوظ کی تحریر کہاں سے لاؤں


بحرِ ذخّار کو کوزے میں سمیٹوں کیسے

اتنا جامع فنِ تحریر کہاں سے لاؤں


میں نہ سعدیؔ ہوں ‘ نہ رومی ؔ ہوں ‘ نہ جامیؔ‘ نہ امیرؔ

!!اپنے لہجے میں وہ تاثیر کہاں سے لاؤں


اپنے افکار کو پابندِ سخن کیسے کروں

میں خود قید ہوں ‘ زنجیر کہاں سے لاؤں


میری ہر نعت مِرا خونِ جگر ہے لیکن

نعتِ حسان کی توقیر کہاں سے لاؤں


نعت میری‘ مرے اشکوں کی زبانی سُن لو

اس سے بہتر لبِ تقریر کہاں سے لاؤں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

ان کے آنے کی خوشیاں مناتے چلو

پھر مدینہ دیکھیں گے، پھر مدینے جائیں گے

یا نبی دیکھا یہ رُتبہ آپ کی نعلین کا

کاگا سب تن کھائیو

آخر نگہ میں گُنبدِ اَخضَر بھی آئے گا

بڑی اُمید ہے سرکارﷺ قدموں میں بُلائیں گے

یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

بیشک میرے مولا کا کرم حد سے سوا ہے

تُو حبیبِ خدا خاتم الانبیاءؐ

عظمتِ کردار میں ہے کب کوئی