ناز کر ناز کہ ہے ان کے طلب گاروں میں

ناز کر ناز کہ ہے ان کے طلب گاروں میں

کم کسی سے نہیں نعمت یہ گنہ گاروں میں


ہر طرف گم ہی نظر آئے ہو نظاروں میں

اس طرح بس گئے ہو تم مرے افکاروں میں


ہجر کی آگ کسوٹی ہے محبت والوں

بوالہوس رہ نہیں سکتے کبھی انگاروں میں


قربتِ شہرِ مدینہ کی یہی ہے صورت

ہم کو چُن دے کوئی اس شہر کی دیواروں میں


شوق پورا ہو ہماری بھی غلامی کا اگر

ہم بھی بک جائیں ترے نام پہ بازاروں میں


ہیں اِدھر اشکِ ندامت تو اُدھر زہد پہ ناز

بس یہی فرق ہے زاہد میں گنہ گاروں میں


جب بھی ہوتی ہے نظر سوئے غریباں ان کی

پھول کِھل جاتے ہیں کچھ نعت کے اشعاروں میں


دل کے چھالوں کا ہے پانی مری آنکھوں میں ادیبؔ

ہجر کا پھول ہوں مسکن ہے مرا خاروں میں

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

مدینے والے ہمارے دل ہیں ازل سے تشنہ ازل سے ترسے

نظر جمالِ رُخ نبی پر جمی ہوئی ہے جمی رہے گی

جذبہ ِ عشق ِ سرکارؐ کام آگیا

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

راہیا سوہنیا مدینے وچہ جا کے تے میرا وی سلام آکھ دئیں

اے صاحبِ معراجﷺ

مرتبہ یہ ہے خیر الانام آپؐ کا

اللہ! کوئی حج کا سبب اب تو بنا دے

اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے

کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں