سخن ہے زمیں آسماں مصطفیٰ ہیں

سخن ہے زمیں آسماں مصطفیٰ ہیں

تخیّل نہ پہونچا جہاں مصطفیٰ ہیں


یہ دولت انہی کے کرم کی بدولت

جدھر دیکھتا ہوں وہاں مصطفیٰ ہیں


یہ رُتبہ مدینے پہنچ کر ملا ہے

کہ ہم میہماں ، میزباں مصطفیٰ ہیں


چراغ محبت جلے تو خبر ہو

جہاں روشنی ہے وہاں مصطفیٰ ہیں


جلائے گی دوزخ مجھے کس طرح تو

کہ میرے تیرے درمیاں مصطفیٰ ہیں


کرم کی گھٹا اور رحمت کی بارش

یہ دونوں جہاں ہیں وہاں مصطفیٰ ہیں


اب اس سے بھلی اور تعریف کیا ہو

سخن ہے خدا کا زباں مصظفیٰ ہیں


ادیبؔ ان کی محفل جہاں بھی سجی ہے

یقیں کہہ رہا ہے وہاں مصطفیٰ ہیں

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

لمحہ لمحہ شمار کرتے ہیں

خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی

شاہِ فلک جناب رسالت مابؐ ہیں

صدشکر‘ اتنا ظرف مری چشم تر میں ہے

دلدار بڑے آئے محبوب بڑے دیکھے

جذبہ ِ عشق ِ سرکارؐ کام آگیا

مرے قلم کی زباں کو اعلیٰ صداقتوں کا شعور دینا

مرتبہ یہ ہے خیر الانام آپؐ کا

نہ کوئی آپ جیسا ہے نہ کوئی آپ جیسا تھا

فیض اُن کے عام ہوگئے