کتنا سادہ بھی ہے، سچا بھی ہے

کتنا سادہ بھی ہے ‘ سچا بھی ہے معیار اُن کا

اُن کا گفتار کا آئینہ ہے کِردار اُن کا


اُن کو مانگا جو خدا سے ‘ تو سبھی کچھ مانگا

کیوں طلب گار ہو اوروں کا طلب گار اُن کا


اُن کے پیکر میں محبت کو ملی ہے تجسیم

پیار کرتا ہے ہر اِنساں سے ‘ پرستار اُن کا


وہی ‘ ظلمات کی رگ رگ میں اُترتا ہوا نور

میں تو کر لیتا ہوں ہر صبح کو دیدار اُن کا


اے خدا ! اَجر کے اعلان سے پہلے سن لے

مجھ کو جنت سے سوا سایہ ء دیوار اُن کا


پسِ ہر حرف وُہی جلوہ فِگن رہتے ہیں

میری مانند مرا فن بھی وفادار اُن کا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

نورِ عرفاں نازشِ پیغمبری اُمّی نبیؐ

اُن کے دربارِ اقدس میں جب بھی کوئی

مانا کہ بے عمل ہُوں نہایت بُرا ہُوں مَیں

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

جوارِ زندگی میں بھی تری خوشبو

اپنا غم یاشہِ انبیا دیجئے

ہر پاسے نور دیاں پیندیاں تجلیاں

مرے دل میں ہے آرزوئے مُحمَّدؐ

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں

ئیں کوئی اوقات او گنہار دی