پنچھی بن کر سانجھ سویرے طیبہ نگریا جاؤں

پنچھی بن کر سانجھ سویرے طیبہ نگریا جاؤں

اُڑتے اُڑتے یادِ نبیؐ میں اپنے پَر پھیلاؤں


نور کے َتڑکے حمد کے میٹھے میٹھے بول سناؤں

کومل کومل سُروں میں چہکوں، نعت نبیؐ کی گاؤں


گنبد ِ سبز کے جلوے ایسے جیسے نور کے دھارے

کردیں دُور اندھیرا دل کا نورانی لشکارے


پیارے نبیؐ کا دیس ہے پیارا ٹھنڈی ٹھار ہوائیں

اُس کی یاد یں خوشبو بن کر نَس نَس میں لہرائیں


جِھلمل جِھلمل کرتی آنکھیں آنسو بہتے جائیں

میرے نبیؐ سے میرے دل کی بپتا کہتے جائیں


پنچھی بن کر سانجھ سویرے طیبہ نگریا جاؤں

اُڑتے اُڑتے یادِ نبیؐ میں اپنے پَر پھیلاؤں

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

ہنجواں دے ہار، پھلاں دے گجرے بنا لواں

تاریخ ہے نگاہ نظارہ حسین ہے

فجر دے رنگ ثنا تیری کرن یا اللہ

خُدایا نئی زندگی چاہتا ہوں

رات پوے تے بے درداں نوں

اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا

خُلقِ رسولؐ سے اگر اُمّت کو آگہی رہے

دورِ ظلمت بیت گیا اب