کیوں عقیدت سے نہ میرا دل پُکارے یا علی

کیوں عقیدت سے نہ میرا دل پُکارے یا علی

جس کے ہیں مولا محمدؐ ، اُس کے ہیں مولا علی


جس گھڑی اللہ کے گھر میں ہوئے پیدا علی

ذرّہ ذرّہ با ادب ہو کر پُکارا ، یا علی


بے نظیر اُنکی شجاعت ، بے مثال اُن کی سخا

ہے زمانے کا یہ نعرہ لا فَتیٰ اِلّا علی


جاں نثارانِ محؐمد کے کئی القاب ہیں

عِلم کا دروازہ کہلائے مگر ، تنہا علی


مَرحَب و عَنتر گرے جس کے خدائی زور سے

مردِ حق ، شیرِ خدا ، خیبر کُشا ، مولا علی


شاہِ مرداں ، قوّتِ بازو رسوؐلَ اللہ کے

کیوں بھَلا ہوتے کسی میدان میں پسپا علی


جان و دل سے تھے عزیز ، اَللہ کے محبوبؐ کو

شبّر و شبیّر و حضرت فاطمہ زھرا، علی


آگئیں نقش و نگارِ زندگی میں رونقیں

صدقِ نیّت سے جو لوحِ دل پہ لکّھا یا علی


خیبر و خندق میں دُشمن کا صفایا کردیا

جوہرِ مردانگی دِکھلا گئے کیا کیا علی


جرات و ہمّت میں تُم ہو آپ ہی اپنا جواب

مادرِ گیتی نہ پیدا کر سکی تُم سا علی


دل گرفتہ ہُوں غم و آلام کی یلغار سے

اِس طرف بھی اک نظر ہو اے مِرے آقا، علی


جن کے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے نصیؔر

وہ حدیثِ مصطفےٰؐ کی رُو سے ہیں ، مولا علی

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

تھی جس کے مقّدر میں گدائی ترے در کی

عظمتِ کردار میں ہے کب کوئی

ماہ سیما ہے اَحْمدِ نوری

مِل جاون یار دیاں گلیاں اساں ساری خدائی کیہہ کرنی

پہنچوں مدینے کاش!میں اِس بے خودی کے ساتھ

آمدِ شہ پر سجے ہیں مشرقین و مغربین

پڑھو صلِّ علیٰ نبینا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

دلدار بڑے آئے محبوب بڑے دیکھے

کرم ہیں آپ نے مجھ کو بلایا یارسول اللہ

مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے