جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

حق عشقِ مصطؐفےٰ کا ادا ہو تو بات ہے


ہر لحظہ دل میں یادِ رسولِؐ انام ہو

ہر دم لبوں پہ صلِّ علیٰ ہو تو بات ہے


سرکارؐ کی رضا میں ہے اللہ کی رضا

ہر دم رضا رسولؐ کی چاہو تو بات ہے


دیتی ہے یہ پیام ہوائے دیارِ پاک

عشقِ نبیؐ عمل کی بِنا ہو تو بات ہے


ہر منزلِ حیات میں پیشِ نگاہِ شوق

ارشادِ خواجہؐ دوسرا ہو تو بات ہے


خیر الا مم کی شان سے ہم سب ہیں سرفراز

انسانیت کا ہم سے بھلا ہو تو بات ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

لہجۂِ گل سے عنادل نے ترنم سیکھا

مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گراے کاش

زمیں میلی نہیں ہوتی ضمن میلا نہیں ہوتا

اے کاش! تصوُّر میں مدینے کی گلی ہو

ہم میں تشریف لائے وہ شاہِ اُمم

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک

آیا ہے وفا کی خوشبو سےسینوں کو بسادینے والا

سب کا پاسباں تُو ہے

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزو ئے نبیؐ رہی

پابند ہوں میں شافعِ محشر کی رضا کا