کھل جائے مجھ پہ بابِ عنایات اے خدا

کھل جائے مجھ پہ بابِ عنایات اے خدا

دیکھوں دیارِ نور کے دن رات اے خدا


باطن کی آنکھ کو بھی عطا روشنی کریں

ارض اللہ کے سعید مقامات اے خدا


حائل نہ ضعفِ جاں رہے کیفِ حضور میں

رفعت کنار ہو مری اوقات اے خدا


پاکیزہ ہو بدن بھی مودب ہو روح بھی

پوری ہوں سب کی سب مری حاجات اے خدا


ظاہر نہ ہو کسی پہ مرے دل کا ماجرا

پلکوں کی اوٹ میں رہے برسات اے خدا


سارا سفر رضا کا سفر کاش بن سکے

کعبہ سے پاؤں شوق کی خیرات اے خدا


کھل جائیں میرے دل میں نئے زندگی کے باب

دیکھوں عریشِ بدرؔ کے لمعات اے خدا


جاکر در حضورؐ پہ پھر پیش کر سکوں

تازہ بتازہ نعت کے نغمات اے خدا


خوانِ کرم پہ بیٹھ کے افطارِروزہ ہو

یوں اس فقیر کی ہو مدارات اے خدا


مابینِ عیرؔوثورؔ ہیں جتنے نِشانِ خیر

تقدیر میں ہوں ان کی زیارات ا ے خدا


مسجد جو فسؔح نام کی دیکھوں اؔحد کے ساتھ

ہوں وسعت آشنا مرے جذبات اے خدا


نذرِ سلام احدؔ کے شہیدوں کو پیش ہو

قسمت میں پھر کبھی ہوں وہ ساعات اے خدا


تاریخ گر مساجدِ طیبہ کو دیکھ کر

واضح ہو شانِ سیّدِ ؐ سادات اے خدا


رکھتی ہے مسجدِ نبوی خاص امتیاز

پائے دل اس میں خاص ہی لذات اے خدا


بیرِ اُریسؔ و رومہؔ، عرس و بضاعہ سے

قسمت میں میری کچھ تو ہوں قطرات اے خدا


دیکھوں میں غارِ ؔسجدہ سکوں کی ملے نوید

کٹ جائے سارا عرصہء ظلمات اے خدا


پھر ہو رسائی مبرکِ ناقہ تلک مری

پیدا ہوں ایسے پھر کبھی حالات اے خدا


ٹھیرا جہاں جہاں مہِ طیبہ کا کارواں

دیکھوں ان آنکھوں سے وہ مقامات اے خدا


تائبؔ فقیر کا رہے پھیرا سدا یہاں

میری یہی ہے عرض و مناجات اے خدا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

ہر روز شبِ تنہائی میں

میرے اچھّے رسُول

بس یہی اہتمام کرتے ہیں

مولا یا صل و سلم دائما ابدا

جہاں ہے منور مدینے کے صدقے

دیکھا سفر میں آبلہ پا، لے گئی مجھے

آؤ مدنی قافِلے میں ہم کریں مل کر سفر

اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے

مرا کل بھی تیرے ہی نام تھا

دلوں کے ساتھ جبینیں جو خم نہیں کرتے