بس یہی اہتمام کرتے ہیں

بس یہی اہتمام کرتے ہیں

ان کی مدحت مدام کرتے ہیں


ذکرِ خیر الانام کرتے ہیں

ہم یہی ایک کام کرتے ہیں


ہم سے عاصی بھی اے شہِ بطحا!

انتظارِ پیام کرتے ہیں


حاضری ان کے در پہ ہو جائے

آرزو خاص و عام کرتے ہیں


آپ کا در ہو اور ہمارا سر

یہ دعا صبح و شام کرتے ہیں


ہجر میں آپ کے شہِ بطحا!

میرے آنسو کلام کرتے ہیں


ان کی چوکھٹ پر تاجدار آکر

خود کو ان کا غلام کرتے ہیں


خلد حصے میں ان کے آئے گی

ان کا جو احترام کرتے ہیں


سبز گنبد کی چھائوں میں آصف

دیکھئے کب قیام کرتے ہیں

شاعر کا نام :- محمد آصف قادری

کتاب کا نام :- مہرِحرا

دیگر کلام

کون ہو مسند نشیں خاکِ مدینہ چھوڑ کر

اک میں ہی نہیں اُن پر قربان زمانہ ہے

لَحَد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے

قطع: اپنے مولا کی بس اک چشمِ عنایت مانگے

نبی کا ذکر کرو تو سکون ملتا ہے

تدبیر ہی الگ ہے، تعبیر ہی الگ ہے

ہیں فلک پر چاند تارے، سرورِ کونین سے

جونہی ان کا نام لیا ہے

اے حبیبِ رب اکبر! آپ کے ہوتے ہوئے

آپ محترم شہِ امم