حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

رحمتِ سیدِ عالم کی ہوا جانتی ہے


کس کی زلفوں کی اسیری ہے ہماری منزل

رونقِ گلشنِ فردوس تُو کیا جانتی ہے


بس مرا کام یہی ہے کہ اَغِثْنِیْ کہہ دوں

آگے جانا ہے کہاں میری صدا جانتی ہے


موسمِ ابر نگاہوں میں بلا غرض نہیں

چشمِ تر ذکرِ مدینہ کو بڑا جانتی ہے


دیکھ کر اُس کو مرے دل کو سکوں ملتا ہے

مرض میرے کو بہت خاکِ شفا جانتی ہے


کون ہے دینِ محمدﷺ کا محافظ اب بھی

یا خدا جانے ہے یا کرب و بلا جانتی ہے


ہے روا اُس کیلئے اپنی کثافت کا گلہ

جسمِ اطہر کی لطافت کو ہوا جانتی ہے


اس سے بڑھ کر تو تبسم کا کوئی فخر نہیں

شاعرِ نعت ہوں اور اُن کی عطا جانتی ہے

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا

سرکار بنا لطف و عطا کون کرے گا

تیریاں نے محفلاں سجائیاں میرے سوہنیا

رکھ لیں وہ جو در پر مجھے دربان وغیرہ

شرحِ واللّیل ہیں گیسوئے معنبر راتیں،

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

ذکر تیرا جو عام کرتے ہیں

کرم کی اِک نظر ہو جانِ عالم یارسول اللہؐ

اے زمینِ عرب ، آسمانِ ادب