حضور آپ ہیں خِلقت کا اوّلیں مطلع

حضور آپ ہیں خِلقت کا اوّلیں مطلع

ابھی خیال سے گزرا ہے یہ حسِیں مطلع


خیال پاک ہو آنکھوں سے اشک جاری ہوں

تو پھر مدینے سے آتا ہے بالیقیں مطلع


مرے نبی کے نشانِ قدم کا شیدا ہے

افق پہ چاند ستاروں کا دلنشیں مطلع


ابد ہے مقطعِ شانِ نبی کا متلاشی

ازل مقامِ محمدﷺ کا بہتریں مطلع


حضور بولے کہ اے ڈوبتے ہوئے سورج !

علی کے واسطے روشن کرو یہیں مطلع


لَقَدْ رَاٰی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی

کلیم دیکھ نہ پائے اِک آتشیں مطلع


ہے اُس کے مقطع کے بارے میں حکمِ مَا اَوْحٰی

کہ جس سفر میں تھی بطحا کی سرزمیں مطلع


جہاں میں نور کی تقسیم کیلئے واللّٰہ

بنا تبسمِ آقائے عالمیں مطلع

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

نبیؐ کی یاد ہے سرمایہ غم کے ماروں کا

آیا لبوں پہ ذِکر جو خیر الانام کا

وہ سُوئے لالہ زار پِھرتے ہیں

بادشاہی ماہ سے ہے تا بہ ماہی آپؐ کی

لب پر مرے حضور کی مدحت سدا رہے

ہم کھولتے ہیں راز کہ کس سے ہے کیا مراد

واہ کیا جود و کرم ہے

شبِ سیہ میں دیا جلایا مرے نبی نے

دل ونگاہ کی دُنیا نئی نئی ہوئی ہے