اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

رونق سی لگ گئی دلِ آشفتہ حال میں


حسنِ شہِ عرب کی ہیں تابانیاں جدا

خورشید تیرتا ہے رخِ پُر جمال میں


فیضان ہے یہ ناخنِ پائے حضور کا

یونہی کشش نہیں ہے وجودِ ہِلال میں


جب دیکھتے تھے شہرِ نبی اٹھتے بیٹھتے

دن کام کے وہی تھے مرے ماہ و سال میں


پھونکیں حسد کی جس کو نہ ہر گز بُجھا سکیں

محوِ سفر وہ نور ہے حضرت کی آل میں


کیسے بھلا سمجھ لوں تجھے خود سا اِک بشر

جب کہ کثافتیں ہیں مرے بال بال میں


کر دیجئے حضور تبسم کہ حشر میں

بدلے جلالِ ذاتِ الٰہی جمال میں

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

نورِ عرفاں نازشِ پیغمبری اُمّی نبیؐ

پکارو یارسول اللہ یاحبیب اللہ

تمام دنیا یہاں سلامت تمام عالم وہاں سلامت

اگر سوئے طیبہ نہ جائے گی ہستی

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زَار ہم

نبیؐ کا نام بھی آرام جاں ہے

خود اپنا قصیدہ ہے نامِ محمد

خاص رَونق ہے سرِ عرشِ علیٰ