لائقِ حمد تری ذات کے محمود ہے تو
لائقِ سجدہ تری ذات کے مسجُود ہے تو
اِنکساری مرا مقسوم کہ بندہ ہُوں مَیں
خود نمائی ترا دستور کہ معبُود ہَے تو
بُعد اتنا کہ کبھی آنکھ نے دیکھا نہ تجھے
قُرب اتنا کہ مری جان میں موجُود ہے تو
ہے ورا حدِّ تعیّن سے تری ذاتِ قدیم
کَون کہتا ہے کسِی سمت میں محدود ہے تو
حُسن پردے میں بھی بے پردہ نظر آتا ہے
اتنا چھُپنے پہ بھی منظور ہَے مشہُود ہے تو
میری کیا بُود کہ معدوم تھا معدوم ہوں مَیں
تیری کیا شان کہ موجود تھا موجُود ہے تو
ایک اعظؔم ہی نہیں عاشِق ناچیز ترا
سب کا مطلوب ہے محبوب ہے مقصود ہے تو
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی