میری عزت کو کافی ہے میرا خدا

میری عزت کو کافی ہے میرا خدا

میں ہوں بندہ ترا تو ہے مالک مِرا


اے خدا ! اے خدا

اے عفوٌ کریم اے رئوف الرّحیم


تُو ہی ستار ہے تُو ہی غفّار ہے

تُوہی موجود ہے تُو ہی مقصود ہے


میری جو بھی عبادت ہے تیرے لئے

تُو ہی معبود ہے


میرے جتنے بھی سجدے ہیں تیرے لئے

تُو ہی مسجود ہے


خالقِ کُل بھی تُو رازقِ کُل بھی تُو

سِّرِ کون ومکاں مالکِ دو جہاں


معترف ہیں ترے یہ زمیں آسماں

میں نے دیکھا یہی میں نے سمجھا یہی


جز ترے کوئی بھی تیرے جیسا نہیں

تو ہی مشکل کشا تو ہی حاجت روا


ایک تجھ کو بقا باقی سب کو فنا

میرے سارے سفر کی ہے منزل یہی


میرا عزّو شَرف ہے مرِی عاجزی

میںندامت کا مارا تہی دست ہوں


ذات اونچی تری میں بڑا پست ہوں

تیرے لطف و کرم کا طلبگار ہوں


تو ہی غفّار ہے میں گنہگار ہوں

اے خدا! اے خدا


ہے یہی التجا

ایک اِذنِ نوا ایک حرف دعا


اپنے لطف و کرم کے تو دَر کھول دے

اے خدا بخش دے


اے خدا بخش دے

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

اٹھی جدھر نگاہ رسالت مآبؐ کی

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

دیکھتے کیا ہو اہل صفا

اکرامِ نبی، الطافِ خدا، سبحان اللہ ماشاء اللہ

سیّدی یا حبیبی مولائی

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں

بزم افلاک میں ہر سو ہے اجالا تیرا

یَا نَبِیْ سَلَامٌ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلْ سَلَامٌ عَلَیْکَ

تری بات بات ہے معجزہ

یاد وچہ روندیاں نیں اکھیاں نمانیاں