بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

حمد ذِکرِ خدا ، نعت ذِکرِ رسُولؐ


اُنؐ کے حُسنِ کرم کا لگاؤ حساب

جن سے سیکھے ہیں سب نے کرم کے اصُول


کوئی مانے نہ مانے یہ اُس کا نصیب

رحمتِ ہر دو عالم ہیں سب کے رسُولؐ


اُمتّوں کے لئے حجّتِ آخری

عرش سے فرش پر اُنؐ کی شانِ نزُول


کیسے مُختار، کیسے عبادت گزار

نا خدائے دو عالم خدا کے رسُولؐ


میری کوتاہیاں گمرہی کی دلیل

وسعتوں کا امیں اُنؐ کا حُسنِ قبُول


ہم کو اپنی خبر ہے نہ اُنؐ کا خیال

وہؐ ہماری خطاؤں کی خاطر ملُول

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

اے کاش کہ آجائے عطارؔ مدینے میں

جو ہجرِ درِ شاہ کا بیمار نہیں ہے

ئیں کوئی اوقات او گنہار دی

پہنچ گیا جو تمہارے در پر

الہٰی واسطہ رحمت کا تُجھ کو

کرم کے آشیانے کی کیا بات ہے

قطرہ مانگے جو کوئی

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

نامِ مُحمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے

میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے