اللہ کرے نصیب ترے خرقہ و کُلاہ

اللہ کرے نصیب ترے خرقہ و کُلاہ

زاہد ہمیں تو شیشہ و پیمانہ چاہیے


عاشق کا کام کیا جو ہو مشغول خلق میں

عشّاق کا تو گھر درِ جانانہ چاہیے


پُوچھے گا گر خدا مجھے کیا چاہیے تجھے

کہہ دوں گا مجھ کو یار کا کاشانہ چاہیے


وصلِ حبیب بیٹھے بٹھائے کہاں نصیب

اس کے لیے تو ہمّتِ مردانہ چاہیے


جبریل ؑ اس لیے ہیں محمّدؐ پہ شیفتہ

ایسی شمع پہ ایسا ہی پروانہ چاہیے


اعظمؔ کو روکتا ہے تو کیوں بزم یار سے

اے نفس باز آ تجھے ایسا نہ چاہیے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

وہ ہے رسُول میرا

اے ربِّ نوا ڈال دے دامن میں نئی نعت

عاصیوں کو دَر تمہارا مِل گیا

راہ پُرخار ہے کیا ہونا ہے

یہ کرم یہ بندہ نوازیاں کہ سدا عطا پہ عطا ہوئی

تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

پیاری ماں مجھ کو تیری دعا چاہیے

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

آیا نہ ہوگا اس طرح، حسن و شباب ریت پر