گھمکول کی وادی کے ہیں

گھمکول کی وادی کے ہیں رنگ جدا گانہ

رندوں کی یہ بستی ہے ماحول ہے رندانہ


جس وقت جہاں سے بھی میخوار چلے آئیں

ہر آن کھلا دیکھا ساقی ترا میخانہ


وہ جام محبت کے بھر بھر کے پلاتے ہیں

گھمکول کے ساقی کا گردش میں ہے پیمانہ


جب ذکرِ الٰہی کے یاں جام چھلکتے ہیں

پھر گونجنے لگتا ہے اک نعرۂ مستانہ


دہلیز پہ سلطاں کی دیکھانہ قلندر کو

سلطان یہاں لیکن آتے ہیں غلامانہ


حق بات سدا کہتے ہو سامنے کوئی بھی

تھا فقر طبیعت میں پر رعب تھا شاہانہ


گھمکول کے خواجہ کی یہ زندہ کرامت ہے

یہ کوہ و دمن روشن آباد یہ ویرانہ


کیا عجزکے پیکر ہیں وارث مرے خواجہ کے

بس دل میں اترتا ہے انداز فقیرانہ


اتنی سی تمنا ہے بس آج مرے خواجہ

آیا ہے جلیل، اس کا منظور ہو نذرانہ

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

افق پہ شام کا منظر لہو لہو کیوں ہے

اتنا عظیم اور کوئی سانحہ نہیں

خوشنودیٔ رسول ہے الفت حسین کی

روشن ہُوا ہے دہر میں ایسا دیا حسین

ذرا کیجیے دلبری غوثِ اعظم

نظر کے سامنے جس دَم خدا کا گھر آیا

اللہ اللہ جس نے اپنا سر کٹایا وہ حسینؓ

یہ حمزہ ؓ کا مرقد شہیدوں کے ڈیرے

لہو لہو دشتِ کربلا ہے

صدق و یقین و مہر و محبت حسینؑ ہیں