باندھنے ہیں تو حضوری کے ارادے باندھے

باندھنے ہیں تو حضوری کے ارادے باندھے

بندہ سوچے تو مدینے ہی کی باتیں سوچے


میری تقدیر! مجھے اتنی بصیرت دے دے

نقشِ نعلینِ نبیؐ سے مری قسمت جاگے


انبیا آپؐ سے ماقبل کے یہ سوچتے تھے

’’آپؐ کی سیرتِ اطہر سے ضیا ڈھونڈیں گے‘‘


عمر جو دور گزاری ہے وہ دوری نہ رہے

جتنی باقی ہے بچی آپؐ کے در پر گزرے


رو برو گنبدِ خضریٰ کے ہوں جلوے ہر دم

عاشقِ سرورِؐ دیں اس کے سوا کیا مانگے


بے پر و بال ہوں آقاؐ مجھے پرواز ملے

تیرے دربار میں دل بن کے کبوتر پہنچے


وقتِ دیدارِ نبیؐ کیا تھا بلالیؓ انداز

کون اب انؓ کی طرح آپؐ کا جلوہ دیکھے


اب ہمیں موت سے مشکل ہے پلٹ کر آنا

جیتے جی کیسے کوئی آپؐ کے در سے لوٹے


سانس کے ساتھ جُڑی جب سے ہے تسبیحِ درود

سانس ہر پل ہیں درودوں سے مہکتے جاتے


انؐ کے ہیں وصف فزوں حدِ بیاں سے طاہرؔ

حقِ توصیف بھلا مجھ سے ادا ہو کیسے

کتاب کا نام :- طرحِ نعت

دیگر کلام

منگتے ہیں کرم ان کا سدا مانگ رہے ہیں

نعتِ شانِ مصطفیٰ ہے شغل ہر جنّ ملک

اَب تو مَیں کچھ بھی نہیں اشکِ ندامت کے سوا

رسول میرے مِرے پیمبر درود تم پر سلام تم پر

وہ حسن بے نقاب ہوا بارہا مگر

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

کِس نے پایا ہے جہاں کی رہنمائی کا شرف

عطا کر کے مدینے کے سویرے

رحمتِ حق کا خزانہ مل گیا

میداں میں مانگتا تھا عَدُو اپنے سُر کی خیر