چھوڑ دے اب تو اے دُنیا میرا پیچھا چھوڑ دے

چھوڑ دے اب تو اے دُنیا میرا پیچھا چھوڑ دے

میری منزل ہے مدینہ میرا رستہ چھوڑ دے


بھیک بن مانگے ملے جاتی ہے اُن کے نام کی

کس طرح منگتا نبی کا نام لینا چھوڑ دے


ہو وہ محبوب خدا مالک نہ ہو مجبور ہو

چھوڑ دے کم ظرف یہ اپنا عقیدہ چھوڑ دے


آئیں تو اُن کا کرم نہ آئیں تو شکوہ نہ کر

ان کی تو بن جا رضا اپنا تقاضہ چھوڑ دے


چھوڑ دے دنیا اگر مجھ کو تو کوئی غم نہیں

اے خیال یار تو مجھے کو نہ تنہا چھوڑ دے


ساقی کوثر کے مے خانے سے بھر بھر جام پی

میں نہیں کہتا مدینے والی پینا چھوڑ دے


پھول کھلتے ہیں مرادوں کے سخی دربار میں

کیوں کوئی داتا کے در پر آنا جانا چھوڑ دے


ایسے مورکھ کا کوئی پھر اپنا بنتا ہی نہیں

جو بھی دانستہ نیازی اپنا آقا چھوڑ دے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

لگا رہی ہے صدا یوں صبا مدینے میں

لفظ ہیں خاک مرے اور زباں مٹی ہے

چل عشق مجھ کو شہر پیمبر میں

قرآنِ مقدس نے کہا کچھ بھی نہیں ہے

نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

کاش ہم کو بھی مدینے کے نظارے ہوتے

توصیف نبیﷺ کرنے والے

جانِ ایمان ہے الفتِ مصطفیٰؐ

محمد دے در اُتے جو جا رہیا اے

زُلفِ سرکار سے جب چہرہ نکلتا ہوگا