فرش تا عرش ہیں سارے زمانے آپؐ کے

فرش تا عرش ہیں سارے زمانے آپؐ کے

ساری دنیاؤں کے ہیں مخفی خزانے آپؐ کے


ذرّہ ذرّہ آپؐ کی سچی رسالت پر گواہ

ذرّے ذرّے کی زباں پر ہیں ترانے آپؐ کے


رہ گئی گردِ سفر بن کی سجیلی کہکشاں

پاؤں چُومے ہیں ستاروں کی اَنا، نے آپؐ کے


کروٹیں لیتے ہیں میرے ذہن میں بدر و حنین

یاد آتے ہیں بہت ساتھی پرانے آپؐ کے


مرکزِ نُور و نظر ہیں آپؐ کے غار و مزار

سب ٹھکانوں سے حسیں تر ہیں ٹھکانے آپؐ کے


حیرتیں گم ہوگئی ہیں دانشیں ہیں لاجواب

رہ گئے اوصاف گِن گِن کر سیانے آپؐ کے


راستہ تکتی رہیں اُن کی نگاہیں آپؐ کا

ہاتھ چُومے ہیں رسولوں کی دُعا نے آپؐ کے


آپ کی یادوں میں گم رہتا ہے انجؔم رات دن

خواب آتے ہیں اِسے اکثر سہانے آپؐ کے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

دو جگ دا سردار ہے سوہنا

فرش تا عرش ہیں سارے زمانے آپؐ کے

غم نہیں جاتی ہے جائے ساری دنیا چھوڑ کر

میں سیہ کار خطا کار کہاں

شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں

یانبی لب پہ آہ و زاری ہے

اپنے بیمار نوں دامن دی ہوا دیندے نے

وہ آسمانِ دُعا کہ جس پر

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

جس کو نسبت ہوئی آپ کے نام سے