فراقِ طیبہ میں دن بہ مشکل تمام کرتی ہیں میری آنکھیں

فراقِ طیبہ میں دن بہ مشکل تمام کرتی ہیں میری آنکھیں

یہی نہ پوچھو کہ کس طرح صبح و شام کرتی ہیں میری آنکھیں


بڑے سلیقے کے ساتھ ہوتی ہے پیشِ آقا میری حضوری

درود پڑھتی ہیں میری سانسیں سلام کرتی ہیں میری آنکھیں


یہ صرف آنسو نہیں ہیں میرے جو قطرہ قطرہ جھلک رہے ہیں

یہ ایک اندازِ گفتگو ہے کلام کرتی ہیں میری آنکھیں


حرم کی حرمت کا پوچھنا کیا کہ وہ تو کعبہ ہے اہلِ دل کا

وہاں کے ایک ایک ذرّے کا احترام کرتی ہیں میری آنکھیں


دیارِ اقدس کے ہر مکیں کو گلے لگاتی ہیں مخلصانہ

تو ہر گدا کو مودبانہ سلام کرتی ہیں میری آنکھیں


نہ خواب گاہوں میں اہلِ زر کی نہ رہ گزاروں میں تاجور کی

گدا ہیں جن کی انہیں کے در پہ قیام کرتی ہیں میری آنکھیں


بصد عقیدت سُنا سُنا کر کلام اقبؔال محفلوں میں

عروجِ دینِ نبیؐ کا بھی اہتمام کرتی ہیں میری آنکھیں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ان کی چوکھٹ پہ جھکانا ہے جبینِ دل کو

درود ان پر جو میرا موضوعِ گفتگو ہیں

رحمت حضور کی ہے کرم کردگار کے

خارِ صحرائے مدینہ کی ہے کیا شان نہ پوچھ

ویکھ لواں اک وار مدینہ

گناہوں کی نہیں جاتی ہے عادت یارسولَ اللہ

مدینے کا یا رَبّ دِکھا راستہ

آمنہ کے پالے نے دو جہاں کو پالا ہے

ترِے شہرِ مقدّس پر تری رحمت کے

ہو بیاں کس سے تمہاری شان وعَظمت یارسول